The National Electric Power Regulatory Authority (Nepra) on Friday formed a committee to visit Karachi and probe complaints of “excessive” electricity load-shedding by the K-Electric (KE) in the metropolis in recent days.
The decision came after the power regulator held a public hearing on the subject via video link, which was attended by public representatives, technical experts, representatives of different entities, members of the business community, journalists and consumers from Karachi.
Residents of Karachi have in recent weeks complained about frequent unannounced power outages that have added to the misery of soaring temperatures and the coronavirus outbreak.
Also read: K-Electric, mercyARTICLE CONTINUES AFTER AD
During today’s hearing, the participants shared their views and complaints regarding the prevailing power supply situation in the city.
Nepra “after detailed deliberations has decided to form a four-member committee of Nepra professionals/experts headed by [the] director general (monitoring & enforcement) to visit Karachi immediately, conduct further investigations on ground and submit a detailed report to the Authority before the end of next week”, said a press release issued after the hearing.
It added that Nepra will take “further necessary action” on the basis of the committee’s report.
‘Critical’ issue
At the outset of the hearing, Sindh Minister for Energy Imtiaz Sheikh said the issue of load-shedding in Karachi had become “critical” and that there was a need for the federal and provincial governments and KE to sit together in order to find a permanent solution to the problem.
He said the provision of fuel to KE should be ensured. The power utility had cited fuel shortages as a reason for the excessive load-shedding.
The minister said the Sindh government was ready to provide assistance to resolve the issued being faced by KE.
Nepra’s Member Sindh Rafique Shaikh proposed that load-shedding during the night should be “immediately” ended in Karachi.
But KE Chief Executive Officer Moonis Alvi said it was not possible, explaining that KE is forced to carry out load-shedding during night time because a shortfall remains even after cutting off the supply to the industry.
“Load-shedding will end the day the demand falls below 2,900MW,” Alvi told the public hearing, which was held on Zoom due to the Covid-19 situation.
Nepra Chairman Tauseef H. Farooqi said the authority will issue a decision after examining all proposals and facts concerning load-shedding.
He noted that the public impression was that load-shedding is often conducted during peak hours, when extra consumers are charged extra power tariff.
Farooqi proposed that peak hours tariff and off-peak tariff should be abolished until load-shedding is completely ended and the tariff should be uniform for all hours of the day.
Unannounced outages
Last month, Nepra had taken notice of complaints regarding continuing unannounced load-shedding in Karachi and directed the power utility to submit a detailed report in this regard.
The body had also noted that inflated electricity bills were being charged to consumers.
The power regulatory authority had taken up the issue as many residents took to the streets to protest the power outages, blocking main roads and highways to bring the issue to the attention of the relevant authorities.
The ruling Pakistan Tehreek-i-Insaf too has launched a protest campaign and staged a sit-in outside the KE head office earlier this week to protest the “atrocities” of the power utility, demanding an end to its monopoly on electricity generation, transmission and distribution and vowing to approach Nepra and the Supreme Court against KE.
For its part, KE had attributed the power outages to fuel shortage, especially shortage of furnace oil, in the country.
“Over 70 per cent of Karachi, including industrial zones, is exempted from [load-shedding]. The ongoing fuel shortage is, however, leading to generation constraints. This has had an impact on K-Electric’s ability to meet the rising electricity demand on account of high temperatures,” the power utility had said in a statement earlier.
K-Electric کی بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف NEPRA کی پبلک HEARING دراصل سیلیکٹڈ HEARING تہی۔
۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اخبار میں اشتہار میں ZOOM Link دے دیا جاتا مگر کہا گیا کہ رجسٹرار کو درخواست دے کر لنک حاصل کریں ۔ جو کہ آخر وقت تک فراہم نہیں کی گئیں ۔صرف من پسند اور سیلیکٹڈ لوگوں کو ہی فراہم کیا گیا، جسکا ثبوت صرف 106 لوگوں کی شرکت ہو سکی ۔
۔ کیا ڈھائی کروڑ لوگوں کی نمائندگی صرف 106 افراد لوگوں سے ممکن ہے؟ جن میں سے بیشتر خود K-Electric سے کسی نہ کسی طرح وابسطہ لوگ اور کچھ اداروں کے دفتری بیٹھے ہوئے تھے ۔
۔ بحرحال کسی طور پر جو چند لوگ کسی طرح Zoom Link حاصل کرنے میں کامیاب رہے یا تو انہیں بولنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا یا ان کے سوالوں کا جواب گول مول اور ٹال مٹول کے انداز میں دیا گیا ۔
۔ زیادہ وقت K-Electric کے CEO کو دیا گیا جو کہ دروغ گوئ سے کام لیتے ہوئے K-Electric کی پرفارمنس بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے اور کسی بھی سوال کا معقول جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کر رہے تھے ۔
یہاں چیئرِمین نیپرا نے ضرور قابل تَعْرِیف کردار ادا کیا اور مونس علوی کو بار بار ٹوکا اور نا صرف یہ کے راست جواب دینے کی تاکید کی بلکہ کے الیکٹرک کی غلط بیانی اور نا اہلی پر تنقید بھی کی .
۔ یہ واضع نشانی ہے کہ یہ ایک نورا کشتی تھی ۔جس میں جان بوجھ کر کراچی کے حقیقی متاثرین کو شرکت سے روکا گیا ہے
اب آتے ہیں اصل مسائل کی طرف یعنی کہ نا قابل برداشت بجلی کی بندش کئ کئ گھنٹوں اور دن میں کئ کئ بار اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سب سے پہلے تو طلب و رسد کے فرق کا بہانہ کیا گی ۔ K-Electric کو آج پہلی بار طلب کا پتہ چلا ہے کراچی کی طلب کتنی ہے۔ سو سال سے قائم ادارے اور 15 سال سے نجی ملکیت میں چلنے والے ادارے کے CEO کو یہ بات کرتے ہوئے شرم بھی نہ آئ کہ مستقبل کی ضروریات کی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی اور اب تک ادارے کو کراچی کی بجلی کی ضروریات کے مطابق خود کفیل کیوں نہیں بنایا جا سکا۔
CEO مونس علوی نے جس ڈھٹای سے کہا کہ لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے اور یہ تمام اداروں کی نظر میں ے اور ہم کوئی انہونی نہیں کر رہے ہیں
۔مزید یہ کہ وقت پر تیل نہ ملنے سے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے ۔ تو کوئ ان سے پوچھے کہ معاہدے کے مطابق ایک ماہ کا تیل کا کم از کم ذخیرہ رکھنا ان کی ذمہ داری تھی تو کیوں اس سے کو تا ہی کی گئ
۔ مزید یہ کہ جن علاقوں میں بجلی کی چوری زیادہ ہے ان علاقوں میں بندش زیادہ کی جاتی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ چوری روکنا کس کا کام ہے اور اس سلسلے میں کیا اقدام کیا گیا ہے اور اگر کچھ لوگ ایک علاقے میں چوری کر رھے ھیں تو باقی لوگوں کی اکثریت جو وقت پر پورا بلکہ چوری شدہ بجلی کا اضافی بل بھی ادا کرنے کے بعد بھی بجلی کی بندش کے عذاب میں کیوں مبتلا ہے انہیں اس سے کیسے نجات ملے گی بجلی چوری یا کنڈا کے الیکٹرک کا عملہ کے بغیر ممکن نہیں ہر کنڈا کے الیکٹرک کے فیلڈ سٹاف کی نظر میں ہے ان سے پردہ پوشی کی جاتی ہے
۔ صرف اس لئے کہ اپنی نا اہلی کو بجلی چوری کے نام پر چھپایا جا سکے
اب آتے ہیں سب سے اہم اور بنیادی سوال پر جو کہ ناصرف سوال بھی ہے بلکہ تمام مسائل کا حل بھی ۔
کے الیکٹرک کو پورے کراچی کی بجلی کی اجارہ داری ۔ Exclusivity/ Monopoly کیوں دی گئی
جب تک کے الیکٹرک قومی تحویل میں ایک ادارہ تھا جس کا کام قوم کو سہولت فراہم اور بنیادی ضرورت فراہم کرنا تھا تب تک تو اجارہ داری پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر جب کہ 2005 اس کو نجی ملکیت میں دیا گیا جس کا کام صرف منافع خوری ہے اس وقت لازما اجارہ داری کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا
۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کو جو کہ پاکستان کا معاشی دارالحکومت اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے K-Electric کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ اس کا صنعتی و معاشی پہیہ روکنے کے درپے ہے
K-Electric کے CEO نے ڈھٹای سے نااہلی کا اعتراف کرنے کے باوجود (Exclusivity) اجارہ داری ختم کرنے کی بے شرمی سے مخالفت کی. یعنی نہ ہم بجلی پوری کر سکتے ہیں اور نہ کسی اور کو پوری کرنے دیں گے
۔کراچی میں 3،200،000 صارفین کو زائد بلز کی مد میں اربوں روپے ماہانہ ہڑپ کر جانے والے اس ادارے نے اپنے کا لے کر توت چھپانے کیلئے تمام اداروں کو زیردست کیا ہوا ہے اس کالی آمدنی میں سب کو شرکت کرکے۔
۔ اگرحکومت مخلص ہے تو PTI کے MNAs پارلیمنٹ کے باہر اسلام آباد میں کیوں دکھاوے کا دھرنا دے رہے ہیں کراچی آکر دھرنے کی قیادت کریں اور K-Electric کے ہیڈ آفس کے باہر دھرنا دیں اور اپنے لاکھوں ووٹرز سے شرکت کی اپیل کریں مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سب ملی بھگت ہے
۔ اگر نجکاری اتنا ہی اچھا اقدام ہے تو صرف کراچی ہی کیوں باقی تمام پاکستان کی ڈسٹریبیوشن کمپنیاں کیوں پرائیویٹائز نہیں کی گئیں یہ امتیازی سلوک صرف کراچی والوں کے ساتھ کیوں کیا گیا ہے
۔ اگر بالفرض مان لیتے ہیں کہ NEPRA اور عدالتیں مخلص اور آزاد ہیں تو پھر یہ K-Electric اپنی من مانی کیوں کرتی پھر رہی ہے کوئی اس کو لگام کیوں نہیں دیتا
۔ کیوں NEPRA اس کا لائسنس منسوخ نہیں کرتا کیوں K-Electric کو وعدہ خلافیوں اور نااہلیوں پر قومی تحویل میں لینے کی سفارش نہیں کرتا۔
۔ کیوں عدالتیں ہر بار حکم امتناعی (stay order) جاری کرکے K-Electric کی مدد کرتی ہیں اور پھر وہ حکم امتناعی کئی کئی سال چلتا ہے اور فیصلہ نہیں ہوتا یا ہونے نہیں دیا جاتا۔
۔ کیوں NEPRA کے قانونی ماہرین اور مشیر عدالت میں پیش ہوکر صاف موقف اختیار نہیں کرتے۔
۔ اگر NEPRA اور عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں تو انکو K-Electric کی اجارہ داری ختم کرنی ہوگی اور مسابقتی ماحول پیدا کرنا ہوگا تا کہ مسابقت اور مقابلے سے جو بہتری آئیگی اسکے ثمرات براہ راست صارفین تک پہنچیں یہ ثمرات ہونگے اضافی بجلی کی پیداوار کی صورت میں اور کم قیمت بجلی اور بلا تعطل بجلی کی فراہمی کی صورت میں۔
یہ ممکن ہوگا اضافی سرمایہ کاری کی صورت میں جو کہ بجلی کی پیداواری استعداد اور اسکی ترسیل کو نہ صرف بڑھانے میں بلکہ انکو Efficiently استعمال کی صورت میں اور نااہلی اور نقصانات کو قابو پانے کو عملی جامہ پہنانے اور مستقبل کی پیش بندی کرنے سے۔
۔ اسلئے وقت کی اہم ضرورت K-Electric کو لگام دینا ہے اسکی اجارہ داری ختم کرنا ہے اور نئے کاروباری اداروں کو جنریشن اور ڈسٹریبیوشن کے لائسنس کا اجراء اور اجازت دینا ہے۔